مخلوق پررحم کی فضیلت

د سویں حد یثِ پاک
           امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پرخطبہ دیتے ہوئے فرمایاکہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان



ذیشان ہے : ’’جسے یہ پسند ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلّ  اسے جہنم کی گرمی سے بچائے اور اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطافرمائے تووہ مسلمانوں پرسختی نہ کرے اوران کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ ‘‘(کنز العمال،کتاب الاخلاق ، الحدیث ۵۹۸۲، ج۳، ص ۶۹)
امام ابن حجر علیہ رحمۃاللہ الاکبر کے چنداشعار:
          حضرت شیخ الاسلام علیہ رحمۃاللہ السَّلام نے آگے بیان کرنے کی عام اجازت دیتے ہوئے چند اشعار کہے ہیں :
وَزِدْمَعَ ضِعْفِ سَبْعَتَیْنِ اِعَانَۃٌ                                                                                                                                لِاَخْرَقَ مَعْ اَخْذٍلِحَقٍ وَبَذْلِہٖ
وَکُرْہُ وُضُوْئٍ ثُمَّ مَشْیٌ لِمَسْجِدٍ                                                                                                       وَتَحْسِیْنُ خُلْقٍ ثُمَّ مَطْعَمُ فَضْلِہٖ
وَکَافِلُ ذِیْ یُتَمٍ وَاُرْمِلَۃٍوَھَتْ                                                                                                                           وَتَاجُرُصِدْقٍ فِی الْمَقَالِ وَفِعْلِہٖ
وَحُزْنٌ وَتَصْبِیْرٌوَنُصْحٌ وَرَأْفَۃٌ                                                                                                                         تَرْبَعُ بِھَاالسَّبْعَاتُ فِیْ فَیْضِ فَضْلِہٖ
ترجمہ:(۱)…سایۂ عرش پانے والے مزیدچودہ افرادیہ ہیں  ۱؎   ناسمجھ کو حق دلا کر اس کی مدد کرنا اور ۲؎ سوالی کو عطاکرنا۔
(۲)…۳؎دشواری میں وضو کرنا۴؎مسجد کی طرف چلنا ۵؎خوش اخلاقی سے پیش آنااور ۶؎بھوکے کو کھاناکھلانا۔
(۳)…۷؎یتیم اور۸؎   محتاج کی کفالت کرنے والا۹؎ ا پنی جوانی کوعبادتِ الٰہی  عَزَّوَجَلَّمیں فنا کرنے والااور۱۰؎ قول وفعل میں سچاتاجر۔
(۴)…۱۱؎غمزدہ۱۲؎بچے کے فوت ہونے پرصبرکرنے والی۱۳؎ بادشاہ کونصیحت کرنے والااور ۱۴؎ لوگوں پرنرمی کرنے والا،پس (ماقبل سے مل کر)فضلِ الٰہی    عَزَّوَجَلَّپانے والے یہ سات کے چار گنا ( یعنی اٹھائیس) ہوگئے ہیں۔
          (علامہ سیوطی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں )میں کہتا ہوں ’’حضرت شیخ الاسلام علیہ



رحمۃاللہ السَّلام نے اُم المؤمنین حضرتسیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیان کردہ حدیث پاک میں موجودایک خصلت کی طرف توجہ نہیں فرمائی (یعنی اشعارمیں ذکرنہ کیا) اوروہ یہ ہے کہ’’ وہ جولوگوں کے حق میں اس طرح فیصلہ کرتے ہیں جیسا اپنے حق میں فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘عنقریب اس کاذکر بھی میرے اشعار میں آئے گا۔‘‘
مُصنّفرحمۃاللہ علیہ پرظا ہر ہونے والے
خصائل کابیان
          (علامہ سیوطی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں )یہاں پران خصائل کوبیان کیاجائے گاجو مجھ پر ظاہر ہوئے ہیں۔چنانچہ،
          حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکافرمانِ ذیشان ہے :’’تین اشخاص بروز قیامت عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔(۱)صلہ رحمی کرنے والاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے رزق میں اضافہ فرماتاہے اور اس کی عمر کو لمبا کرتا ہے (۲)وہ عورت جس کا شوہر فوت ہوگیا اوراس نے صرف یتیم بچے چھوڑے تو وہ  عورت کہے کہ’’ میں دوسرا نکاح نہیں کروں گی بس اپنے یتیم بچوں کی نگہبانی کروں گی یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوجائے یاپھراللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو غنی کردے اور(۳)وہ بندہ جس نے کھانا تیار کیاپس اپنے مہمان کی ضیافت کی اوراس میں خوب اچھی طرح خرچ کیا پھر یتیم اور مسکین کو بلایا اور انھیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے کھلایا۔‘‘

ایک روایت میں یوں ہے کہ ’’اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے اور ان پر شفقت کرنے والااور وہ شخص جس نے بہت اچھا کھانا تیار کیا اور فقراء ومساکین کو بلایااور انھیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے کھلایا۔‘‘ 
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہروقت ساتھ ہے:
          حضرت سیِّدُناابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِعظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے :’’تین شخص قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سایۂ رحمت میں ہوں گے(۱)وہ شخص جس نے کہیں بھی توجہ کی تویہ یقین رکھاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  اس کے ساتھ ہے (۲) وہ شخص جسے کوئی عورت اپنی طرف دعوتِ گناہ دے تووہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کے باعث اس سے بازرہے (۳)وہ شخص جو لوگوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے محبت کرتا ہے۔‘‘
(فردوس الاخبار،باب الثائ،الحدیث۲۳۵۰،ج۱،ص۳۲۲)
          حضرت سیِّدُنا فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیِّدُنا داؤد علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارگاہ ربُّ العزّت میں عرض کی:’’اے میرے رب عَزَّوَجَلََّّ !مجھے اپنی مخلوق میں سے اپنے محبوب بندوں کے بارے میں خبر دے تاکہ میں اُن سے تیری خاطرمحبت کروں۔‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّنے ارشادفرمایا:’’(۱)وہ بادشاہ   جو لوگوں پر رحم کرتا ہے اورلوگوں کے حق میں اس طرح فیصلہ کرے جیسااپنے حق میں
 فیصلہ کرتا ہے (۲)وہ شخص جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا تو وہ اس کواللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کے حصول اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں خرچ کرے (۳) وہ شخص جس نے اپنی جوانی اور طاقت کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں فناکردیا(۴)وہ شخص جس کا دل مساجد کی محبت کی وجہ سے انہی میں لگا رہتا ہے (۵) وہ شخص جو کسی خوبصورت عورت سے ملا پس وہ عورت اُسے اپنے آپ پرقدرت دے تووہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کے سبب اس کو چھوڑ دے (۶)وہ شخص جو جہاں بھی ہویہ یقین رکھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  میرے ساتھ ہے (۷)وہ لوگ جن کے دل صاف اورکمائی پاک ہے وہ میری رضا کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں ،مَیں ان کاچرچاکرتا ہوں اور وہ میرا ذکر کرتے ہیں اور(۸) وہ شخص جس کی آنکھیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے آنسوبہائیں۔‘‘
(الزھد لابن المبارک ،باب تو بۃ داؤد…الخ ، الحدیث ۴۷۱، ج۱،ص۱۶۱ )
          حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے :’’دنیا میں بھوکے رہنے والے لوگو ں کی ارواح کواللہ عَزَّوَجَلَّ قبض فرماتا ہے اور  ان کاحال یہ ہوتاہے کہ اگر غائب ہوجائیں توانہیں تلاش نہیں کیا جاتا، اگر موجود ہوں تو پہچانے نہیں جاتے ،دنیا میں پوشیدہ ہوتے ہیں مگر آسمانوں میں ان کی شہرت ہوتی ہے ، جب جاہل وبے علم شخص انہیں دیکھتا ہے تو ان کوبیمار گمان کرتا ہے جبکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف دامن گیرہوتا ہے، قیامت کے دن یہ لوگ عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ۔‘‘



No comments:

Post a Comment